شمالی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ پچھلے ایک دہائی یا زیادہ سے عالمی سطح پر میڈیا میں بری خبروں کے لئے گردش میں رہا ہوگا لیکن یہ خطہ تاریخی اور ثقافتی طور پر بہت گہرائی رکھتا ہے۔ یہ خطہ افغانستان کے ساتھ سرحد پر واقع ہے۔ اس کا دارالحکومت پشاور صدیوں سے بیوپاریوں(تاجروں) ، زائرین اور حملہ آوروں کا راستہ رہا ہے تھا اس طرح پشاور ثقافتوں اور مذاہب کے حوالے سے ایک سرگرم جگہ رہی ہے۔
بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ جب پڑوس میں افغانستان طالبان جیسے مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں پڑ گیا جنہوں نے مارچ 2001 میں بامیان میں چھٹی صدی کے مقدس بدھا کے مجسموں کو بموں سے اڑایا تو اس شہر اور اس پورے خطے کو کس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ طالبان اور القاعدہ کے دہشت گرد نیٹ ورک نے خطے خصوصا پشاور میں بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے تباہی مچا دی۔ بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے بدھ مت چین ، کوریا اور باقی بہت ساری جگہوں پر پھیلاتھا۔ اس خطے کی حالیہ تاریخ ڈراؤنی ہوسکتی ہے لیکن لوٹس(کنول)- جو کہ گندھارا آرٹ میں پاکیزگی کی ایک مقدس علامت ہے آج بھی یہاں پر اگتا ہے۔
حالیہ تشدد نے پشاور شہر سمیت پورے صوبے کی تاریخی حیثیت کی ساکھ خراب کردی۔ یہ وہ خطہ تھا جہاں ثقافتیں اور مذاہب کاوجود قیام میں آیا تھا۔ طالبان کے خلاف پاکستان کی فوجی کارروائی کے بعد پچھلے دو سالوں میں خطے کے بیشتر حصوں میں امن کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ پشاور شہر آج تک جنوبی ایشیاء کا قدیم ترین رہائشی شہر ہے ۔جوایک متمول تاریخ اور ثقافت کے آثار کی تمام خصوصیات اور نقوش برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ آج بھی افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ساتھ تجارت کے لئے ایک سیاسی اور معاشی اہمیت کا حامل ہے۔